Monday, October 6, 2014

حضرت مولانا سالم صاحب قاسمی حفظہ اللہ

یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے


شیخ الحدیث حضرت مولانا اسلم صاحب قاسمی - فرزند حضرت قاری طیب صاحب رحمہ اللہ-

یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے


مولانا معزالدین صاحب فاروقی ندوی

یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے


مفتی احسان صاحب قاسمی ندوی


شیخ الادب حضرت مولانا اسلام صاحب قاسمی مدنی

یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے


شیخ الحدیث مفتی خورشید صاحب قاسمی


یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے

شیخ الحدیث مولانا انظر شاہ صاحب کشمیری رحمہ اللہ

یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے


مولانا نصرت صاحب ندوی

یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے


مفتی نعیم الدین مفتاحی

یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے


مولانا علیم الدین ندوی

یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے


مولانا نجیب الدین ندوی

یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے


حضرت مولانا صدرالحسن ندوی مدنی

یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے


حضرت مولانا عبدالرشید ندوی مدنی

یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے


شیخ الادب حضرت مولانا عبدالقدیر قاسمی مدنی

یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے


شیخ الحدیث حضرت مولانا مجیب الدین صاحب قاسمی

یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے


حضرت مولانا ریاض الدین صاحب فاروقی ندوی

یہ تحریر طباعت کے مراحل میں ہے


مولوی عبدالمجید صاحب - بانی فیض القرآن پربھنی

===================
  مولوی
عبدالمجید صاحب
(بانی فیض القرآن پربھنی)    
===================
وہ مرد مجاہد، اعلی درجے کا متقی وپرہیزگار، مخلص وامین، ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکهنے والا ایک بوڑها حافظ قرآن تها.... جسے بہت کم لوگ جانتے ہیں، اسے اس دنیا سے رخصت ہوکر کچھ 15 برس گذر چکے ہیں،  میں تقریبا اپنی عمر کی 13 ویں بہار میں قدم رکهہ رہا تها، میرے والد محترم نے ان ہی صاحب کے تقوے وپرہیزگاری سے متاثر ہوکر مجهے ان کے مدرسے میں داخل کروایا تها... میں نے اس مدرسے میں ایک برس تک تعلیم حاصل کی.. کئی چیزوں کو سیکھنے کے ساتھ ساتھکئی چیزوں سے سبق بهی لیا... 

وہ شخص جس نے اس مدرسے کی بنیاد رکهی لوگ اسے مولوی عبدالمجید صاحب کے نام سے جانتے ہیں اور وہ مدرسہ جسے اس شخص نے تقوے کی بنیاد پر قائم کیا تها آج "فیض القرآن" کے نام سے معروف ہے....
آج عبد المجید صاحب جیسے لوگ بہت کم دکهائی دیتے ہیں، یقینا امت کے خادمین کی بهرمار ہے لیکن
"مجهے نمک کی کان میں مٹهاس کی تلاش ہے"
فیض القرآن آج سے 15 برس قبل مرہٹواڑے کے پربھنی شہر سے 5 کلو میٹر دور ایک غیر آباد مقام پر واقع تها... دور دور تک انسان تو کیا حیوان بهی دکهائی نہیں دیتے تهے... ایسے مقام پر ایک رات تقریبا 10بجے ایک گاڑی آئی جس میں شہر سے بعض لوگوں نے بریانی کي دو دیگیں لائی تهیں.... ہم طلباء بہت خوش تهے...مولوی صاحب اس اثناء مدرسے میں موجود تهے...آپ تشریف لائے..اس وقت تک مدرسے کے خدامین نے کهانا گاڑی سے اتار لیا تها، مولوی صاحب نے کهانے کی دیگیں کهولنے سے روک دیا اور کهانا لانے والے حضرات سے کهانا لانے کی وجہ معلوم کی... تو پتہ چلا کہ کسی فنکشن میں کهانا بنایا گیا تها اور یہ دو دیگیں اس میں سے بچی ہوئی ہیں... لہذا مدرسہ پہنچائی گئی... حافظ صاحب نے جیسے ہی یہ بات سنی ، جلال میں آگئے اور کہنے لگے :
کیا مدرسے کے بچوں کو فقیر سمجها آپ نے ؟ ہمیں ایسے کهانے کی کوئی ضرورت نہیں...ابهی یہاں سے اٹهادو..
مولوی صاحب کے اس کڑے لیکن برحق لہجے نے ہم کم عمر طلباء کو بهی راضی کرلیا اور بریانی کی خوشی غصے میں بدل گئی...لہذا اسی وقت کهانے کی دونوں دیگوں کو گاڑی میں چڑهایا گیا اور ان حضرات نے اس کهانے کو ایک دوسرے مدرسے میں پہنچایا....
مولوی صاحب کی صفت امانت بهی مجهے ہر موڑ پر بار بار یاد آتی ہے....ایک سال کے عرصے میں دو سے تین دفعہ آپ ہم طلباء کو اپنے آفس میں فردا فردا بلاتے تهے... آپ کے ساتهہ پیش کار بهی ہوتے تهے.. پیش کار ہم طلباء کے ہاتهہ میں رقم دیا کرتے تهے اور ہم طلباء کو وہ رقم مولوی صاحب کے حوالے کرنی ہوتی تهی.... دراصل یہ زکوة کا مالک بنانے کا ایک طریقہ تها.. لیکن آج خادمین ملت میں یہ چیز بهی دکهائی نہیں دیتی ہے.
أولئك آبائي فجئني بمثلهم
         إذا جمعتنا يا جرير المجامع